Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

طغرل بڑے جذباتی انداز میں دادی کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آیا الماری کھول کر اپنے کپڑے بیڈ پر رکھنے لگا اس کا وجیہہ چہرہ غم و غصے سرخ ہو رہا تھا ابھی وہ تمام سامان اکٹھا بھی نہیں کر پایا تھا کہ معید دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوا۔
”ارے کہاں جانے کی تیاری ہے میری جان۔“ وہ سامان دیکھ کر کچھ حیرت سے گویا ہوا۔
”جہاں تقدیر لے جائے ،چلا جاؤں گا۔
“ وہ بیڈ پر ڈریسنگ ٹیبل سے سامان اٹھا کر رکھتا ہوا سرد مہری سے کہہ رہا تھا۔
”اوہ اس کا مقصد ہے پھر تمہاری لڑائی ہوئی ہے پری سے؟“ وہ اس کے قریب آکر متجسس انداز میں بولا۔
”شٹ اپ تم ہر بار یہی کہتے ہو میں کیا ہر وقت لڑتا ہوں اسی سے بلاوجہ کی بکواس مت کیا کرو ہر وقت۔“ اس نے سائیڈ روم سے سوٹ کیس لاتے ہوئے جھنجلا کر کہا۔


”ارے ارے یہ تم کیوں بن بادل برسات کی طرح برس رہے ہو ،پری سے لڑائی نہیں ہوئی تو پھر کس سے ہوئی ہے؟“ جواباً خاموشی سے وہ چند لمحوں تک اس کی طرف دیکھتا رہا پھر گہری سانس لے کر وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا اور دونوں ہاتھوں میں سر تھامتا ہوا رنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
”تم اس وقت کیوں آئے ہو معید! تم کو اس وقت یہاں نہیں آنا چاہئے تھا ،میرا دماغ آؤٹ آف کنٹرول ہے میں حواسوں میں نہیں ہوں۔“
”وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے اس ڈپریشن کی وجہ بھی تو بتاؤ؟“ معید نے اپنائیت بھرے انداز میں اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ اس کو ہر بات بتاتا چلا گیا تھا ،اس نے پورے انہماک سے اس کی بات سنی تھی۔
”میں رکنے والا نہیں ہوں ،کسی بھی قیمت پر یہاں اب۔
”اس قدر ایموشنل کیوں ہو رہے ہو تم کو فیاض ماموں سے بھی ایک بار بات کرنی چاہئے انہوں نے تم کو ہرٹ نہیں کیا تمہاری بات مان کر تمہاری اہمیت کا اظہار کیا ہے وہ میری یہی ایڈوئز ہے تم ان سے فائنل بات کرو۔“ معید نے سوچتے ہوئے مشورہ دیا۔
”چچا جان گھر پر ٹھہر ہی کب رہے ہیں ،ایک کے بعد ایک ٹور پر ہوتے ہیں وہ اور پھر ان سے کیا بات کروں؟ جب وہ معاملہ پارس اور مثنیٰ آنٹی کے ہینڈ اوور کر چکے ہیں۔
”جب بات وہاں جا چکی ہے فیصلہ بھی وہاں سے ہوگا تو پھر تم نانی جان سے خفا ہو کر کیوں جا رہے ہو؟“
”پارس آنٹی کو راضی کر لے گی وہ نائس لیڈی ہیں۔“
”اوہ! وہ راضی ہیں تو نانی بھی کیوں انکار کریں گے؟“ وہ مسکراتا ہوا گویا ہوا۔
”دادی جان ابھی تک بیس سال پرانی باتیں یاد رکھے ہوئے ہیں ،ان کے خیال میں فیاض چچا کی طرح میں بھی شادی کے بعد وہ ہی کروں گا جو انہوں نے مثنیٰ آنٹی کے ساتھ کیا تھا۔
”ہوں… طغرل دودھ کا جلا چھاجھ بھی پھونک کر پیتا ہے ،نانی جان کے اندیشے بے بنیاد ہرگز نہیں ہے۔ تم پہلے مذنہ آنٹی کو تو راضی کرو پھر فراز ماموں کو بتاؤ ،کب تک ان سے چھپاتے رہو گے ان کو انوالو کئے بنا یہ کام کبھی نہیں ہوگا۔“ معید کی بات اس کے دل کو لگی تھی۔
###
”عادلہ اب تم گھر چلنے کی تیاری کرو ،طبیعت بہتر ہو گئی تمہاری وہاں اماں جان نے پوچھ پوچھ کر دماغ خراب کر دیا ہے۔
خدا جانے کیا مسئلہ ہے اس بڑھیا کے ساتھ ہر ایک کی ٹوہ میں رہتی ہیں۔“ صباحت خاموش بیٹھی عادلہ سے آ کر مخاطب ہوئیں۔
”ان کو سب کا خیال رکھنے کی عادت ہے شروع سے۔“
”ارے باز آئی میں تو ایسے خیال سے جو دوسرے کی زندگی اجیرن کر دے۔“ وہ منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے کانوں کا ہاتھ لگا کر بولیں۔
”اور تم نے اس حرام خور شیری سے بات کی ،کب پرپوزل بھیج رہا ہے وہ؟ اتنے دن گزرنے کے بعد بھی پلٹ کر اس نے خبر نہیں لی ہے نامعلوم اب کسی کے ساتھ منہ کالا کر رہا ہوگا؟“
”ممی پلیز! اس طرح مت کہیں۔
“ عادلہ رونے لگی۔
”اس میں رونے کی کیا بات ہے ،کیا تم اب بھی اس کی نیچر کو سمجھ نہیں سکی ہو جو آنسو بہانے بیٹھ گئی ہو۔“ عادلہ کے آنسوؤں نے ان کو پوری طرح تپا ڈالا تھا۔
”میں شیری کو تصور میں بھی کسی اور کے ساتھ نہیں شیئر کر سکتی۔“
”وہ تمہارے دل کی پروا کرے تب ناں تم یوں ہی پاگل ہو۔“
”آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ کیوں نہیں دیتی ہیں ممی! ہر دوسرے دن میرا دل جلانے کیلئے چلی آتی ہیں آپ۔
”آپی! ملازمہ کھانا تیار کر رہی ہے کھا کر جایئے گا۔“ زینب وہاں آتی ہوئیں گویا ہوئی۔
”ارے ابھی تو چائے کے ساتھ اسنیکس کھائے ہیں ،اب کھانے کی تو بالکل بھی گنجائش نہیں ہے تم اس سر پھر لڑکی کو سمجھاؤ ،وقت کی نزاکت کو سمجھے ،اتنا دھوکہ بھی اس کی ہٹ دھرمی ختم نہ کر سکا۔“ وہ قریب بیٹھی زینب سے گویا ہوئی تھیں۔
”عادلہ بے حد ڈسٹرب ہے آپی! آپ پلیز اس کے ساتھ تعاون کریں۔
“ وہ خاموشی سے آنسو صاف کرتی عادلہ کی طرف دیکھ کر ہمدردی سے بولیں۔
”میں تو تعاون کرتی آ رہی ہوں لیکن یہ وقت و حالات کی نزاکت کو سمجھنے پر تیار نہیں ہے۔ وہاں اماں جان اور فیاض کو میں جس طرح فیس کرتی ہوں وہ میں ہی جانتی ہوں ،بڑے ٹیڑھے لوگ ہیں وہ دونوں۔“ ان کے لہجے میں جھنجلاہٹ تھی عادلہ جانے کیلئے اٹھ گئی تھی۔
شیری اور مسز عابدی کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی۔
وہ اس کے انکار کے بعد اسے پوری طرح نظر انداز کر چکی تھیں اسے اور وہ ضد میں اکڑے بیٹھا تھا ،مسٹر عابدی فیاض کے ساتھ مل کر ایک نئی فرم مین ٹین کر رہے تھے اس پورے سیٹ اپ میں ان کی دن رات کی محنت صرف ہو رہی تھی۔ گھر آنے جانے کا شیڈول بھی ڈسٹرب ہو چکا تھا یہی وجہ تھی کہ عابدی ان ماں بیٹے کے درمیان چلنے والی چپقلش سے بے خبر تھی۔
”مما… پلیز اب غصہ بھول بھی جایئے! اس طرح کسی غیر لڑکی کی خاطر اپنے بیٹے سے کب تک خفا رہیں گی؟“ وہ مطلبی لہجے میں ان سے مخاطب ہوا۔
”میری بات مان جاؤ تو میں خفگی بھول جاؤں گی۔“ وہ اس کا ہاتھ اپنے شانے سے ہٹاتے ہوئے سپاٹ لہجے میں گویا ہوئیں۔
”آپ ایسی سنگدل تو نہیں تھیں مما! کیوں ہر وقت عادلہ… عادلہ کے گن گاتی رہتی ہیں ایسا تو نہیں ہوتا ہے۔ شادی میں اپنی پسند کی لڑکی سے کروں گا ،یہ آپ اچھی طرح جانتی ہیں میں جو کہتا ہوں وہ ہی کرتا ہوں آپ کی بات میں نہیں مانوں گا میری لائف پارٹنر صرف پری بنے گی۔
“ وہ کہہ کر غصے سے چلا گیا۔
وہاں آتے ہوئے عابدی نے بیٹے کو بگڑتے تیوروں کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا تھا ،ان کے ماتھے پر تردد کی شکنیں ابھر آئی تھیں۔
”ارے عابدی آپ اس طرح اچانک آئے ہیں ،گاڑی کے ہارن کی آواز نہیں آئی، گاڑی پر نہیں آئے ہیں آپ؟“ انہوں نے عابدی صاحب کو بے وقت آت دیکھ کر مسرت آمیز لہجے میں پوچھا۔
”گاڑی شوفر ورکشاپ لے کر گیا ہے یہ شیری کا موڈ آف کیوں ہے؟“ وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے بولے۔
ان کی نگاہیں ابھی بھی کامن روم سے اٹیچڈ سیڑھیوں کی طرف مرکوز تھیں جہاں شہریار گیا تھا۔
”نتھنگ اسپیشل آپ تو جانتے ہیں ذرا ذرا سی بات پر مس بی ہیو کرنے کی عادت ہے شیری کی۔“ مسز عابدی ان کا خراب موڈ دیکھ کر ٹالتے ہوئے بولیں۔
”میں نوٹ کر رہا ہوں ،شیری دن بدن غیر ذمے دار اور موڈی ہوتا جا رہا ہے اور تم سے بدتمیزی کرنے کی اجازت کس نے دی ہے اس کو؟“
”ارے نہیں عابدی! ایسی کوئی بات نہیں کی ہے شیری نے۔
“ انہوں نے فوراً ہی بیٹے کی سائیڈ لی۔
”جی ہاں! میں سن چکا ہوں ابھی موصوف کس بات پر آپ سے بحث کر کے گئے ہیں یہ بتاؤ مجھے کیا بات ہو رہی تھی؟“
”میں نے بتایا تو آپ کو کوئی خاص بات نہیں تھی۔“
”پلیز نور جہاں! تم شیری کو بچوں کی طرح ہینڈل نہ کیا کرو وہ اب جوان ہے سوچنے سمجھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔“
”میں اس کو بچہ نہیں سمجھتی اور اسی لئے اس کو شادی کا کہہ رہی ہوں ،ابھی بھی یہی بات کر رہی تھی۔
“ وہ ان کے غصہ میں دیکھ کر آہستہ آہستہ بتانے لگی تھیں۔
”ہوں پہلے وہ عادلہ میں انٹرسٹڈ تھا تو شادی سے انکار کیوں کر رہا ہے؟ کس میں انٹرسٹ لے رہا ہے اب؟“ مسز عابدی پری کا نام اور عادلہ و شیری کے تعلقات گول کرتے ہوئے مختصراً ان کو سب بتا چکی تھیں۔
”میں خود معلوم کرتا ہوں اس سے۔“
”ارے ابھی آپ آئے ہیں چینج تو کر لیں پھر بات کر لیجئے گا ،میں رجب کو کہتی ہوں وہ چائے تیار کرکے لے آئے۔
“ وہ مسکراتے ہوئے ان کا بازو تھام کر گویا ہوئی۔
###
گئے دنوں کی عزیز باتیں
نگار صبحیں ،گلاب راتیں
بساط دل بھی عجیب شے ہے
ہزار جہتیں ،ہزار ماتیں
جدائیوں کی ہوائیں لمحوں کی
خشک مٹی اڑا رہی ہیں
گئی رتوں کا ملال کب تک
چلو کہ شاخیں تو ٹوٹتی ہیں
چلو کہ قبروں پر خون رونے سے
 اپنی آنکھیں ہی پھوٹتی ہیں
ماہ رخ خواب کی کیفیت میں اپنی سرزمین کو دیکھ رہی تھی ،اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے ایئر پورٹ سے باہر آنے کے بعد وہ اپنی جذباتی کیفیت پر قابو نہ پا سکی تھی۔
اعوان اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا سو اس نے اسے رونے دیا تھا اور گھر تک ان کے درمیان خاموشی کی دیوار حائل رہی تھی۔
”ناشتہ کر لو ماہ رخ ،رات سے کچھ نہیں کھایا ہے تم نے۔“
”رات نامعلوم کس طرح نیند آ گئی مجھ کو ورنہ مجھے لگ رہا تھا میں اب کبھی سو ہی نہ پاؤں گی ،مجھے مدتوں بعد یہ یقین آئے گا اپنے ملک ،اپنے شہر واپس آ گئی ہوں ،مجھے سب ابھی تک خیال کا گمان لگتا رہا ہے۔
“ وہ بیدار ہونے کے بعد ٹیرس پر کھڑی باہر دیکھ رہی تھی ،جہاں بھاگتی دوڑتی زندگی کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔
گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم رواں دواں تھا وہ تمام اجنبی لوگ ،عمارتیں ،ہر موجود شے سے اس کو اپنائیت کا احساس ہو رہا تھا عجیب سی انسیت و راحت کا احساس تھا۔ اپنی مٹی اور لوگوں کا احساس اس کے دل کو تقویت بخش رہا تھا۔
”ہوں ،دراصل رات میں نے دودھ میں گولیاں ڈال کر دی تھیں ،تاکہ تم سکون سے سو جاؤ۔
“ اعوان کے لہجے میں محبت بھرا خلوص تھا۔
”مجھے معلوم تھا جس ماحول سے نکل کر تم آئی ہو ایسے تکلیف وہ وقت کو تم جلدی بھلا نہ سکوں گی پھر جس طرح ہم نے غفران احمر کے محل سے فرار حاصل کی اس سرنگ کا وہ گھٹن زدہ سفر ،سب بہت مشکل تھا وہ سب میرے اعصاب پر ابھی تک حاوی ہے تو تم جتنا بھی آرام کرو اپنے ذہن کو ریلیکس رکھو اتنا ہی بہتر ہے تمہارے لئے تم کچھ عرصہ تک اپنے ذہن کو پرسکون رکھنے کیلئے ٹیبلٹس لیتی رہنا۔
”وہ سب میں کسی طرح بھی بھلا نہ سکوں گی ،وہ زندگی مجھ پر کسی سائے کی مانند چمٹی رہے گی۔ نادانی ایک بار ہوتی ہے پر اس کی سزا ختم ہونے کے بعد بھی کہاں ختم ہوتی ہے اعوان۔“ اس کی آنکھوں میں پھر آنسو چمکنے لگے تھے۔
”پلیز اب رونا نہیں ماہ رخ! آنسوؤں کو بھول جاؤ۔“
”ان آنسوؤں کو میں کس طرح بھول سکتی ہوں ،یہ آنسو تو میری دولت ہیں میرے برے وقت کے ساتھی ہیں۔
“ وہ ٹشو سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی گویا ہوئی۔
”اوکے کم آن ،ناشتہ کرتے ہیں ملازمہ نے لگا دیا ہے۔“ اعوان مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔“ اس نے دھیمے لہجے میں اٹکتے ہوئے دل کی بات کہہ دی۔
”ہاں… وہ… کیوں نہیں… تمہارے گھر بھی لے کر جاؤں گا تم کو پہلے ناشتہ کرتے ہیں۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔
“ وہ اس سے نگاہیں چرا کر بولا۔
”پلیز… پلیز اعوان! میں ان سے فوراً ملنا چاہتی ہوں ،جب دوریاں تھیں اس وقت میں مجبور تھی اور اب اتنے قریب آکر مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی ہے ان کی جدائی۔“ وہ اعوان کا بازو پکڑ کر لجاجت آمیز لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”میں جانتا ہوں ماہ رخ میں تمہاری فیلنگز سمجھ رہا ہوں پہلے ناشتہ کرو۔“
”تم میرے جذبات نہیں سمجھ رہے اگر سمجھ رہے ہوتے تو رات مجھے نیند کی گولیاں دینے کے بجائے مجھے گھر لے کر جاتے۔
تم کو کیا معلوم میں اپنوں کی صورتیں دیکھنے کیلئے کس قدر تڑپی ہوں۔“
”میں سب سمجھ رہا ہوں۔“
”پھر بھی پہلے ناشتے کی ضد کر رہے ہو؟“ وہ بات قطع کرکے بولی۔
”ہاں کیوں کہ وہاں اب تمہارے لئے کچھ نہیں ہے۔“ اس کو سخت اضطراب میں دیکھ کر وہ گہری سانس لے کر بولا۔
”کیا… کیا مطلب کچھ نہیں ہے… تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا معلوم ہے تمہیں ،وہاں میں تم سے پوچھ پوچھ کر تھک گئی تھی اور تم نے میرے گھر والوں کے متعلق کچھ بتا کر نہیں دیا اور اب بھی تم مجھ سے پہیلیوں میں بات کر رہے ہو۔
“ اس نے کسی سخت اشتعال میں آکر اس کا گریبان پکڑ لیا تھا۔
”دکھا دی نہ تم نے بھی اپنی اصلیت؟ تم جیسی کیٹگری کے مرد اسی طرح پہلے احسان کرتے ہیں پھر احسان کا بدلہ سود سمیت وصول کرتے ہیں ،تم مجھے وہاں سے یہاں لے کر آئے ہو تو…“
”کول ڈاؤن مائی ڈیئر!“ اعوان نے نرمی سے کہتے ہوئے اس سے اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے کہا ،وہ پر اعتماد تھا۔
”میں تمہاری کسی بات کا مائنڈ نہیں کروں گا میں جانتا ہوں تم اب مردوں پر اعتبار جلد کر بھی نہیں پاؤ گی لیکن میری نیت پر شبہ مت کرو۔“
”پھر میرے ابو امی کے پاس لے کر کیوں نہیں جا رہے سچ سچ بتاؤ۔“
”سچ سن سکتی ہو تو سنو… وہ دنیا میں نہیں ہیں اب۔“

   1
0 Comments